Haroon Rashid
@theharoonrashid.bsky.social
260 followers 130 following 88 posts
A Pakistani journalist forced to be here because of ban on X
Posts Media Videos Starter Packs
مجھے نہیں، پاکستان کو مبارک ہو: فیلڈ مارشل عاصم منیر url:https://www.independenturdu.com/node/180108
My observations at the ceremony to hand over baton to the new field marshal
When wars end, the victors write their story.
Special Investment Facilitation Council was established on 19th June, 2023. Since July that year till June, 2024 approximately USD 2.3B MI inflows have been recorded by the State Bank of Pakistan.
Latest from India: Congress MP Deependra Hooda asked if India had lost any jets in the operation sindoor, but MEA officials said it was beyond their domain to answer this question. #sindoor #pahalgam
In compliance with the IMF commitment, the federal government will not procue wheat this year. However, in consultation with provinces and stakeholders, it will ensure adequate wheat availability without compromising farmer's interest.
The govemment has decided to wind up three subsidiaries of Ministry of Railways namely Pakistan Railway Advisory and Consultancy Services (PRACS), Pakistan Freight Transpo(ation Company (PRFTC) and Railway Construction Company (RAILCOP).
FGEHA allots plots/apartments to Federal Govemment Employees and other Specified groups. There is no plan for affordable housing scheme for low and middle-income citizens, Govt Tells NA
بلوچستان میں مہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی اور دیگر کی ضمانت کے مقدمے میں ان کے وکیل ساجد ترین ایڈووکیٹ نے قائم مقام چیف جسٹس اعجاز سواتی اور جسٹس عامر رانا کی عدالت نمبر 1 پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ مہرنگ بلوچ دو ماہ سے جیل میں ہیں۔
Reposted by Haroon Rashid
کرم میں فریقین کے اسلحہ جمع کرانے تک مرکزی شاہراہ بند رکھیں گے: صوبائی حکومت
**خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ جمع نہیں کرایا جاتا تب تک مرکزی ٹل پاڑا چنار شاہراہ کو نہیں کھولا جائے گا۔** یہ مرکزی شاہراہ کرم کو پاکستان کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے اور گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔ اس وقت یہ شاہراہ لوئر کرم کے علاقے بگن سے آگے پاڑا چنار تک پر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے اپر کرم میں ادویات، پیٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی روڈ پر گاڑیوں پر مختلف فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے حالات کشیدہ تھے اور رواں سال سات نومبر سے سکیورٹی فورسز کے گاڑیوں کے حصار میں مسافر گاڑیوں کو پاڑا چنار جانے کی اجازت تھی۔ تاہم 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پولیس کے مطابق ایک مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد جان سے گئے تھے۔ اسی حملے کے اگلے روز مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم میں پولیس کے مطابق 22 نومبر کو بگن بازار میں دکانوں اور گھروں کو آگ لگا کر جلایا تھا۔ اس کے بعد شعیہ اور سنی قبائل کے مابین کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں جس میں پولیس کے مطابق 133 افراد جان سے گئے تھے۔ تاہم تقریباً دو ہفتوں سگ سے کرم میں فریقین کے مابین فائر بندی پر اتفاق کیا گیا ہے لیکن مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار بدستور بند ہے۔ **امن جرگہ اور ڈیڈ لاک** کرم میں امن قائم کرنے کے لیے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر ایک جرگہ قائم کیا گیا ہے جن کی دونوں فریقین کے ساتھ مختلف نشستیں ہوئی ہیں اور جرگے کی سربراہی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کر رہے ہیں۔ تاہم بظاہر ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے کیونکہ جرگے کے سربراہ اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق حکومت نے دونوں فریقین کو اسلحہ جمع کرنے اور مورچے مسمار کرنے کا کہا ہے۔ # مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) گذشتہ روز جرگہ اراکین نے بیرسٹر سیف سے ملاقات بھی کی ہے اور بیرسٹر سیف کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ بھاری اسلحے کی حوالگی اور بنکرز کے خاتمے کے بغیر مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی۔ بیرسٹر سیف نے پریس کانفرنس میں بتایا، ’بھاری اسلحے سے میری مراد کلاشنکوف وغیرہ نہیں بلکہ اینٹی ایئر کرافٹ اسلحہ، میزائل، اور آر پی جیز کا استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی استعمال پر سخت کارروائی ہو گی۔‘ اسلحے کو حکومت کے حوالگی پر فریقین کے تحفظات کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اسلحہ حوالگی پر تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ کچھ لوگ اسلحہ جمع کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف نے واضح الفاظ مین بتایا کہ جب تک اسلحہ جمع نہیں کیا جاتا تو مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی کیونکہ سڑک کی بندش کی وجہ ہی حملے اور فائرنگ ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘ہم کوشش کرتے ہیں کہ فریقین کو وقت دیں اور وہ رضاکارانہ طور پر بھاری اسلحہ جمع کریں لیکن اگر اسلحہ جمع نہیں کرتے، تو پھر ہم ایک ڈیڈ لائن دے کر کارروائی کریں گے اور حکومت کا حتمی فیصلہ ہے۔’ اسلحے کی موجودگی کے حوالے سے بیرسٹر سیف نے بتایا کہ وہاں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے کیونکہ کرم کا بارڈر افغانستان سے ملتا ہے اور پہلے بارڈر پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔ **ہسپتالوں میں کیا حالات ہیں؟** گذشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ضلعی ہسپتال کا ایک خط گردش کر رہا ہے جس میں کہا کیا گیا ہے کہ ادویات کی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے، تاہم گذشتہ روز ایدھی فاؤنڈیشن نے ایئر ایمبولینس کے ذریعے ادویات کی کھیپ پہنچائی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی بھی کرم گئے تھے اور ان کے مطابق بچوں کی اموات نمونیا کی ادویات کی کمی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ فیصل ایدھی نے بتایا، ‘گذشتہ کچھ عرصے سے ہسپتال کے وارڈز کو گرم رکھنے کی سہولت نہ ہونے اور نمونیا کی ادویات کی کمی سے 27 بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔’ دوسری جانب صوبائی مشیر صحت احتشام علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ادویات کی سپلائی رکی ہے اور نہ ختم ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ادویات کی قلت سے ابھی تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی ہے جبکہ گذشتہ روز وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ضروری ویکسین اور ادویات کی تیسری کھیپ صدہ اور پاڑا چنار ہسپتال پہنچائی گئی ہے۔ احتشام علی کے مطابق، ‘دو ماہ کی ویکسین اور ضروری ادویات کی کھیپ ہسپتالوں میں پہنچائی گئی ہیں اور اب تک دو کروڑ سے زائد ادویات کی کھیپ کرم پہنچائی گئی ہے۔’ بیرسٹر سیف نے اس حوالے سے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بچوں کی اموات کے اعدادوشمار گذشتہ تقریباً 75 دنوں کی ہیں جس میں اموات کی کچھ دیگر وجوہات شامل ہیں۔ ’لیکن یہ میں بالکل نہیں کہتا کہ مشکلات نہیں ہیں۔ ‘ مقامی افراد کے مطابق ہسپتالوں میں ضروری ادویات تو پہنچائی گئی ہے لیکن مارکیٹ میں فارمیسیوں میں ادویات کی کمی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر دوا لینے والوں کے لیے شدید مشکلات ہیں۔ ضلع کرم خیبر پختونخوا ادویات جرگہ یہ مرکزی شاہراہ کرم کو پاکستان کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے اور گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔ اظہار اللہ بدھ, دسمبر 18, 2024 - 16:45 Main image: > <p>17 دسمبر 2024 کی اس تصویر میں کرم میں ایدھی رضاکار امدادی سامان جہاز کے ذریعے پہنچاتے ہوئے (اے ایف پی/ علی مرتضیٰ)</p> پاکستان type: news related nodes: کرم گرینڈ پشتون قومی جرگہ: ’امن کے حوالے سے جلد خوش خبری سنائیں گے‘ کرم: فائر بندی کے بعد جھڑپیں بند، فریقین نے مورچے خالی کر دیے کرم سے متعلق مری امن معاہدے کا مکمل نفاذ اب تک کیوں نہیں ہو سکا؟ کرم: تازہ جھڑپوں میں 13 اموات، مرنے والوں کی تعداد 124 تک جا پہنچی SEO Title: کرم میں فریقین کے اسلحہ جمع کرانے تک مرکزی شاہراہ بند رکھیں گے: صوبائی حکومت copyright: show related homepage: Show on Homepage
www.independenturdu.com
Climbed everest this year on my bike.
Great discussion around big tech and digital media at #sehafisummit at #BNU
Thanks to Farooq Mahsud, president Mehsud Press Club wana for hosting us and giving the chance to meet tribal journalists
Don't think its over that easy. Responsible policemen need to be punished.
عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مطیع اللہ جان گھر آگئے، یہ مسئلہ فی الحال خوش اسلوبی سے حل ہوچکا ہے۔
Reposted by Haroon Rashid
ٹی وی اینکر: اب خبر نہیں، سٹائل اہم ہو گیا ہے
**پی ٹی وی سے پرائیوٹ چینلوں تک پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح نیوز یا خبروں کی پروڈکشن کے حوالے سے ایک بڑا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرائیوٹ چینلز کی دھوم جب پاکستان میں مچی تو جہاں اینٹرٹینمنٹ سین بدلا وہیں خبروں کی پروڈکشن بھی بدلی۔** یہ تبدیلی ایڈیٹوریل کے حساب سے بھی اور اپنی طرز کے لحاظ سے بھی آئی۔ جہاں ایک طویل عرصے تک ٹی وی دیکھنے والے علاقائی، انگریزی اور اردو زبان میں ایک ٹھہرے ہوئے انداز اور بیانیے کے عادی تھے، ثریا شہاب، اظہر لودھی، ماہ پارہ صفدر، عشرت فاطمہ، شائستہ زید اور خالد حمید جیسی شخصیات کو دیکھنے، سننے اور ان کی خبروں پہ آنکھیں بند کر کے یقین کیا کرتے تھے، وہیں نجی چینلز کو ملنے والے لائسنسوں نے جیسے خبروں دنیا میں ہیجان برپا کر دیا۔ ایک نیوز اینکر ٹی وی دیکھنے والوں کے لیے کیا تاثر رکھتا ہے، ٹی وی اور ریڈیو کے منجھے ہوئے صحافی شاہ زیب جیلانی نے اس کو یوں بیان کیا، ’نیوز اینکر اور پروگرام اینکر کو الگ الگ انداز میں دیکھنا چاہیے، نیوز اینکر صداقت، سچائی اور ٹرسٹ کے پلڑے میں تولا جاتا ہے، اس کی شخصیت بہت زیادہ اہم نہیں ہوتی بلکہ اس کی خبر اس کا بیان کردہ مواد لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔‘ لیکن جس انداز میں آج خبروں کی پروڈکشن کی جاتی ہے شاید ایسا نہ ہو، نیوز اینکر کا کانٹیںٹ، اس کی ادائیگی اور اس کی خبر کے ساتھ جڑت اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا اس کا سٹائل ہوتا ہے، اب شاید خبر سنی کم اور دیکھی زیادہ جاتی ہے۔ معروف صحافی و مصنف عنبر خیری اس بارے میں پی ٹی وی کی نیوز پروڈکشن کو آج بھی سراہتے ہوئے کہتی ہیں، ’نیوز اینکر ہو یا پروگرام اینکر اس کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے، پی ٹی وی کی ٹریننگ میں آج بھی خبروں میں ہیجان نہیں ہوتا لیکن پرائیوٹ چینلز میں نیوز اینکر یا نیوز ریڈر خبر کو جس انداز میں پیش کرتے ہیں وہ یقیناً ان کے چینلز کی ڈیمانڈ کو پورا کرتے ہیں لیکن اس میں نیوٹرل ہونے کا عنصر گمشدہ لگتا ہے۔ نیوز اینکر کی شخصیت ٹھہراؤ اور اتھارٹی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ پی ٹی وی کا اپنا ایک ٹھہرا ہوا انداز ہے۔ جو دیکھنے اور سننے میں گراں نہیں گزرتا۔‘ لیکن کیا پرائیوٹ چینلز نے خبروں اور نیوز پروگراموں کو اینکر سے جوڑ دیا ہے، کیا اینکر کا کردار خبر سے بڑا ہو گیا ہے؟ # مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) اس سوال کے جواب میں جیو ٹیلی وژن کی سینیئر پروڈیوسر منزہ صدیقی نے کہا، ’جو نیوز اینکر کہلانے لگے ہیں وہ بنیادی طور پہ نیوز ریڈر ہوتے ہیں اور جو کرنٹ افیئرز کے پروگرام کرتے ہیں وہ پروگرام اینکر ہوتے ہیں۔ جو ہمارے اس وقت بڑے بڑے نیوز پروگرام اینکر ہیں، حامد میر، سہیل وڑائچ، نسیم زہرا جیسے نام یہ صحافتی بیک گراونڈ رکھتے ہیں، ان کی گروتھ کا انداز یکسر مختلف ہے اور نیوز ریڈر کا مختلف ہے۔ نیوز ریڈر کے لیے ہم نے صرف کم عمر بچے جو سکرین پہ اچھے نظر آئیں بس یہی معیار رکھا ہوا ہے۔ ماضی کے نیوز ریڈر اپنے تجربے کے ساتھ مقرر ہوا کرتے تھے۔ ان کے انداز سے یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی دوسرے کی لکھی خبر پڑھ رہے ہیں۔‘ نیوز اینکر بھی ہر خبر کے ساتھ ایک مخصوص لہجے کو اپناتے نظر آتے ہیں جو خبر کی غیر جانبداری سے میل نہیں کھاتا۔ جب تک پروگرام اینکر دو مہمانوں کا آپس میں ’تصادم‘ نہ کرا دیں پروگرام ’جمتا‘ نہیں ہے۔ اسی سوال پر شاہ زیب جیلانی نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ذاتی رائے یا نظریہ اہم ہوتا ہے۔ نیوز پروگرام اینکر ہی چلاتے ہیں، ان کا نظریہ ان کی بات کا وزن ہر اینکر کے مختلف فالوؤر بناتا ہے، چاہے وہ حامد میر ہوں یا کاشف عباسی۔ ان کے پروگرام کی ریٹنگ ان کے کامیاب ہونے کا پیمانہ ہے اور یہ دنیا کے ہر چینل پہ ہوتا ہے۔ ایسے میں فالوؤر یہ نہیں دیکھتے کہ جرنلزم کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں بلکہ وہ اپنی پسند کے اینکر کے ذاتی تبصرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔‘ جہاں تک رہی بات ان پروگراموں میں تصادم کا سماں باندھنے کی تو جیو ٹی وی کی منزہ صدیقی کا ماننا تھا کہ ’آن سکرین جب دو مخالف رہنما اختلافات میں جاتے ہیں جو ریٹنگ تو بڑھتی ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد سے ایسے آن سکرین تصادم کم ہوئے ہیں، کیونکہ لوگوں کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ اس سے اچھے لڑائی جھگڑے سوشل میڈیا پہ مل جاتے ہیں۔ اینکرز کو اپنے کام، اپنے کانٹینٹ اور اپنی پریزنس پہ کام کرنا ہوتا ہے تاکہ پروگرام ان کی پہچان سے مقبول ہوں۔ پروگرام اینکر اکثر کتنے بھی منجھے ہوئے ہوں وہ سوال کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یعنی جرح نہیں کرتے۔ > **فالوؤر یہ نہیں دیکھتے کہ جرنلزم کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں بلکہ وہ اپنی پسند کے اینکر کے ذاتی تبصرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔** ’ریٹنگز کے لیے اینکر کی شکل پہ بالکل زیادہ زور دیا جاتا ہے، خبریں، اینکر کی ذمہ داری نہیں ہوتیں ایک پوری ٹیم ان کو مواد تیار کر کے دیتی ہے تو اینکر کی بڑی توجہ صرف اپنی شخصیت کے ظاہری نکھار پہ ہوتی ہے۔ لیکن نوجوان اینکرز کے لیے ضروری ہے کہ کانٹیںٹ کے حوالے بھی سے اپنی تیاری کیا کریں۔‘ پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے جو ٹی وی دیکھا کرتی تھی لیکن ڈیجیٹل میڈیا نے اب یہ ناظرین اب پنی طرف راغب کر لیے ہیں۔ پی ٹی وی کا روایتی انداز، نیوز ریڈر اور نیوز اینکر کا فرق اور اس کی شخصیت کا حصار اپنی جگہ لیکن موجودہ دور کہ جب ’اے آئی جینیریٹڈ‘ مواد اور چہرے دیکھے جانے لگ جائیں گے ایسے میں نیوز اور پروگرام اینکر کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس وقت بھی ایک مخصوص عمر کے افراد ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو نیوز پروگرام اور خبریں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن نوجوان ڈیجیٹل میڈیا کی طرف بڑا جھکاؤ رکھتے ہیں، جو ’شخصیت ‘ کو اہم سمجھتے ہیں۔ وہ چینل کو نہیں دیکھتے۔ آنے والے’اے آئی جینیریٹڈ‘ دور میں کی جب نیوز کا طرز بدلنے کو ہے اینکرز کا مستقبل کیا ہو گا، منزہ صدیقی سمیت دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ’نیوز ریڈر سے زیادہ جرنلسٹ کی ضرورت ہو گی۔ ایسے اینکرز جو اپنے کام کو پہچانتے ہوں۔ اور وہ اپنے چینل بنائیں۔ لہٰذا جو نوجوان اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں انہیں شکل سے زیادہ اپنی صحافیانہ مہارت کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ڈیجیٹل میڈیا پہ فلٹر لگا لیے جاتے ہیں لیکن اے آئی میں تو آپ خود بھی ایک خوش شکل کردار تخلیق کر سکتے ہیں جو خبریں پڑھ رہا ہو لیکن دیکھنے والوں کی انس ہونے میں وقت لگے گا۔ اب نوجوانوں کو اس فیلڈ میں نیوز اینکر نہیں بلکہ صحافی بن کے قدم رکھنا ہو گا۔‘ نیوز اینکر صحافت ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن ایک زمانے میں اینکر کی دی گئی خبر پر لوگ آنکھیں بند کر یقین کرتے تھے، مگر اب اینکر کی توجہ ہیجان پیدا پر مرکوز ہو گئی ہے۔ عروج جعفری منگل, دسمبر 10, 2024 - 11:45 Main image: > <p class="rteright">ٹی وی صحافت کے معیار، انداز اور پیش کش میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں (اے ایف پی)</p> بلاگ type: news related nodes: ٹی وی چینلز کے اینکرز! کچھ پڑھ بھی لیا کریں عمر عادل کے بیان پر خواتین اینکرز برہم: ’معافی مانگیں‘ ’صحافت خودکشی کر رہی ہے:‘ اینکر کا مہمان کے ساتھ جارحانہ رویہ اسرائیلی مہمان انڈین خاتون اینکر کی ساڑھی کے رنگ پر ’ناراض‘ SEO Title: ٹی وی اینکر: اب خبر نہیں، سٹائل اہم ہو گیا ہے copyright: show related homepage: Hide from Homepage
www.independenturdu.com