Mian Javed Latif
@mianjavedlatif.bsky.social
1.2K followers 14 following 82 posts
Politician, a democrat __ Former Federal Minister and a PML(N) worker
Posts Media Videos Starter Packs
‏میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت تو چاہے گی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں بھلے چھ ماہ لگ جائیں مگر جو پی ٹی آئی کی کمیٹی بنی ہے اس کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ دو تین میٹنگز سے آگے جائے کیونکہ جس نے کمیٹی بنائی ہے وہ اسے ختم کر دے گا کیونکہ اسے باہر آنے کی بہت جلدی ہے۔
‏اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم ڈائریکٹ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کر رہے ہیں تو پھر قوم کو بیوقوف کب تک بنایا جائےگا؟بقول عمران خان وہ آئین قانون کی بالادستی کیلئے جمہوریت اور پاکستان کیلئے جدوجہد کر رہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑ رہے ہیں، تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیوں کر رہے ہیں؟
‏روف حسن کہہ رہے ہیں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ 9مئی اسٹیبلشمنٹ کی ریڈ لائن ہے۔ PTI کی مذاکراتی کمیٹی کےپاس کوئی اختیار نہیں ہے، مگر انکی ایک ہی ضرورت ہےکہ عمران خان کو باہر نکالیں،پھر حکومت وقت کو جیل میں ڈال دیں اور عمران خان کو حکومت میں بٹھادیں۔
‏ایک طرف راگ لگاتے ہیں کہ عدلیہ ادارے آزاد ہونے چاہیں۔اداروں کےلوگ بھی کہتےہیں ادارے آزاد ہیں اگر190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ مذاکرات کی شکل میں آگے گیا ہےتو اس کا مطلب ادارے آزاد نہیں ہیں۔دوسرا 25عام ورکرز کو سزا مل گئی اور جو خاص لوگ ہیں ماسٹر مائنڈ ہیں ان کیلئےمذاکرات ہورہے ہیں۔
‏مذاکرات کی کامیابی کا امکان ففٹی ففٹی نہیں ہوگا %100 لیفٹ یا %100 رائٹ ہوگا، اس کی وجہ یہ ہےکہ عالمی قوتیں کا ضرورت اور مقاصد کیلئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا لوگوں سے رابطہ کرنا ان کیلئے کھڑے ہونا کسی ریاست کسی شخصیت کیلئے کسی جماعت کیلئے کھڑے ہونا اپنے مفاد کے بغیر نہیں ہوتا۔
‏حکومت وقت کی کمیٹی 9/10 مئی کے حوالے سے اور 190 ملین پاؤنڈ کیس کے حوالے سے بااختیار نہیں ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کی کمیٹی بااختیار کیوں وہ عمران خان کو رہا کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے لہٰذا عمران خان ان کے کئے ہوئے فیصلے کو نہیں مانے گا۔
2014 میں ان کی جماعت میں سے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کر رہا تھا انکی تو سرپرستی کی جا رہی تھی، اس وقت کوئی سزائیں نہیں تھیں عمران خان جیل میں نہیں تھے سول نافرمانی کا اس وقت کیوں اعلان کیا تھا؟ اس وقت سول نافرمانی کرنے والے کو سزا دی جاتی تو آج وہ دوسری بار سول نافرمانی کی بات نہ کرتا۔
‏آج بھی یہ بات کہتا ہوں کہ سول نافرمانی کا حکومت وقت کو نقصان نہیں ہوگا یہ نقصان ریاست کو پہنچے گا۔اگر خدانخواستہ سول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر یہ حکومت جاتی ہے تو جائے،مگر کیا آنےوالی کوئی حکومت ٹھہر سکےگی؟ریاست کیلئے کوئی کام کرسکے گا؟ریاست کا کون والی وارث ہوگا؟
‏کہا گیا کہ 2014 میں آپ بے اختیار تھے تو حکومت چھوڑ دیتے۔مگر ہم نے بےاختیار ہوتے ہوئےبھی پاکستان کے اندر سےلوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور مہنگائی کا خاتمہ کیا سی پیک دیا،پاکستان کا کھویا ہوا مقام حاصل کیا اس کے باوجود ہم اپنی حکومت نہ بچاسکے اپنے بے گناہ پرائم منسٹر کو سزا سے نہ بچا سکے۔
‏9 مئی کا ایک کیس ہوا ایک جماعت کے ورکرز کو سزا ہو اور اس جماعت کی لیڈرشپ کو اسی کیس میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہ کیا جائے تو پھر این آر او کسے کہتے ہیں؟ سہولت کاری کسے کہتے ہیں؟ اگر منصوبہ بندی کرنے والا میں ہوں اور میرے کہنے پر کوئی واردات ڈالتا ہے تو میں کیسے بری ہو سکتا ہوں؟
‏2014 میں جب دھرنا شروع ہوا تو دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم نوازشریف تھے۔پھر ایک ایسے کیس میں جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اس کیس میں ہم اپنے پرائم منسٹر کو بچا سکے تھے؟ کیا پرائم منسٹر خود کو بچا سکے تھے؟ آج تو ہمارے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔
‏آخر کار ڈیڑھ سال بعد ریاست کو انصاف ملنے کی امید جاگی ہے، مگر ریاست کو مکمل انصاف تب ملے گا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ منصوبہ ساز اور سہولت کاروں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں ملیں گی۔ ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی بجائے وہی سلوک ہونا چاہیے جو دہشت گردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
جنرل فیض حمید کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 50 سیاستدانوں سے انکے تعلقات تھے ان سےملتے تھے اور انہیں سہولت کاری دیتے تھے، اس میں اکثریت PTI کی تھی مسلم لیگ اور PPP کے کچھ لوگ بھی تھے۔ جو بھی فیض حمید سےفیض یاب ہوا ہے انکےنام بھی سامنے آنےچاہئیں اور انہیں کٹہرے میں بھی لانا چاہیے۔
اگر ڈیڑھ سال میں ریاست کو9 مئی کا انصاف مل گیا ہے تو پھر یہ ٹرائل سول کورٹ میں ہونا چاہیے۔ڈیڑھ سال میں تمام شواہد کے باوجود آج تک ریاست کو انصاف ملنےمیں رکاوٹ ہے۔ دہشت گردوں کےٹرائل فوجی عدالتوں میں کیے جاسکتے ہیں تو9مئی کےدہشتگردوں کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں کیے جاسکتے۔
‏ریاستی اداروں کے ترجمان کو بھی کہنا چاہیے کہ اس شخص کو اداروں کے اندر سےان لوگوں نے سپورٹ کیا، بقول قمر باجوہ کے ایک پلے بوائےکو صادق امین کا سرٹیفکیٹ دیا، اس ادارے کے ترجمان کو بھی بات کرنی چاہیےکہ ایک شخص کو تاحیات نااہل کس کےکہنےپر کیا اور دوسرےکو صادق امین کا سرٹیفکیٹ دیا۔
وزیر اعظم کو بھی واضح طور پر کہنا چاہیے مذکراتی کمیٹی کے ساتھ اس شرط پر بات ہو سکتی ہے کہ آئین قانون میں کوئی ترمیم کے حوالے سے حکومت کے طزر عمل سے سفارتی تعلقات جو بنانے جا رہے ہیں اور مالیاتی اداروں سے ڈیل پر جو تحفظات ہیں اس پر بات ہو سکتی ہے۔عسکری ونگ سےمذاکرات نہیں ہو سکتے۔
16 دسمبر 1971 میں ایک جماعت نے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا،پہلے تو اس جماعت کو الیکشن میں نہ جانے دیا جاتا اگر جانے دیا گیا تھا تو نتائج کو تسلیم کرکے حکومت دینی چاہیے تھی جنرل یحییٰ کو ضد نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آج بھی مذکرات کے ذریعے پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم مسلح ہو کر آ رہے ہیں۔
یہ نہیں ہو سکتا حکومت وقت جیل چلی جائے اور جیل والوں کو حکومت میں بٹھا دیاجائے۔یہ تو اسی طرح کےمطالبات ہیں کہ آپ ریاست کےساتھ جو مرضی کھلواڑ کریں عالمی ایجنڈا لےکر جو مرضی کارستانیاں کریں سی پیک بند کردیں عالمی قوتوں کےمفادات پورے کریں اور خود کو سیاسی قوت کہلائیں یہ نہیں ہوسکتا۔
‏جب کوئی جماعت حکومت بنانے کو تیار نہیں تھی۔ ساڑھے تین سالوں میں اتنے مسائل اور گرداب میں چیزیں پھنسا دی گئیں تو پھر نواز شریف نے دیکھا کہ 18 ماہ کی حکومت میں قربانی دے کر بھی ہمیں کوئی قبول نہیں کر رہا اور ہم نے اپنی مقبولیت کو بھی گنوا لیا تو کم از کم پاکستان کو ہی بچا لیں۔
‏اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ انکو فارم 47 حکومت دے دی گئی تو پھر کوئی یہ بھی کہے کہ 2018 میں RTS بٹھا کر جو حکومت دی گئی تھی ساڑھے تین سال اسکو کون چلاتا رہا؟ آج جس حکومت کو فارم 47 کی پیداوار کہا جاتا ہےاگر مسلم لیگ شہبازشریف کا کندھا پیش نہ کرتی تو ملک آج بھی گرداب میں پھنسا ہوتا۔
‏پیپلزپارٹی PTI جو ہم پر تنقید کررہی تھی پھر انہوں نےبھی کہہ دیا کہ ہم وفاق میں حکومت بنانے کو تیار نہیں ہیں۔اسکےبعد مسلم لیگ پر زور ڈالا گیا کہ مالیاتی اداروں سے ڈیل کرنے کیلئےکوئی سیاسی جماعت ہوگی تو پاکستان کو اس گرداب سے نکالا جا سکےگا یہ ہے وہ ارینجمنٹ جس کےتحت حکومت بنی ہے۔
‏جو جماعت حکومت میں ہوتی ہے اسکے مسائل بڑھ جاتے ہیں 8 فروری کے نتائج کے بعد میری شہباز شریف صاحب سےجو پہلی ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے کہا کہ میں بھی آپ لوگوں کی اور قائد محترم کی رائے کے ساتھ متفق ہوں کہ ہمیں سادہ اکثریت بھی نہیں ملنےدی گئی تو ہمیں وفاق میں حکومت نہیں بنانی چاہیے۔
‏مذاکرات بغیر شرط کے ہوں اور تمام ملزمان کے کیسز خاص طور پر عمران خان کے کیسز کو ادارے ڈیل کریں گے، کیوں کہ مذکراتی کمیٹی کے پاس اور حکومت وقت کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو این آر او دے سکیں۔ایک طرف یہ آئین قانون کی بات کرتے ہیں دوسری طرف غیر قانونی کام پر اکساتے ہیں۔
‏سیاسی جماعتوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں حکومت کا اپوزیشن کو انگیج کرنا ان سے بات کرنا انکی شکایات کو ایڈریس کرنا جمہوریت میں لازم ہوتا ہے۔آج ایک طرف بات کرتے ہیں کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف سول نافرمانی کی کال کا کہتے ہیں ایک طرف گریبان پکڑتے ہیں دوسری طرف پاؤں پکڑتے ہیں۔
‏پی ٹی آئی کے عسکری ونگ کے علاوہ جو پولیٹیکل حصہ ہے ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر کیا وہ اتنے بااختیار ہونگے؟ایک طرف علیمہ بی بی کوئی اور بات کرتی ہیں تو دوسری طرف گوہر علی خان بلکل ہی مختلف بات کرتے ہیں۔انہوں نے ریاست اور آئین قانون کو مذاق بنا دیا ہے۔