یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستانی حکومت ہی نے طالبان کو سرپرستی دی اور وہی وبال ہے جو سب کے گلے پڑا ہے لیکن جیسا آپ نے کہا کے اب وہ مقامی لوگوں کو ساتھ ملا رہے ہیں یہ نہیں ہونا چاہئے چاہے شیعہ ہوں یا سنی کسی کو کسی بیرونی طاقت کا آلہ کار نہیں بنا چاہے
میرے بھائی فوج کو کبھی اتنے منظم انداز میں نشانہ نہیں بنایا گیا جتنا کہ اب۔ سنہ بانوے میں کراچی کا فوجی آپریشن ہم نے آنکھوں سے دیکھا ہے تب بھی کسی نے فوج کو ایسے گالیاں نہیں دیں تھیں۔ اس وقت فوج سوشل میڈیا کے زریعے ایک باقاعدہ مہم کا نشانہ بنی ہوئی ہے
شیعہ سنی چودہ سو سال سے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن پہلے کم از کم کھلے عام نہ شیعہ سنی کو برا کہتے تھے نہ سنی شیعہ کو حالانکہ اختلافات کی نوعیت وہی ہے جو پہلے دن تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندی بڑھانے سے ہی اس گالم گلوچ کو رواج ملا ہے
پاکستانی بھایوں۔ مسلکی بنیادوں پر نفرت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے پوچھو کے کیا سنیوں کے کہنے سے شیعہ سنی ہو جائیں گے یا شیعاوں کے کہنے سے سنی شیعہ ہو جائیں گے؟ اگر نہیں تو کیوں ایک دوسرے کے خون کی پیاسے بنے ہوئے ہو؟ سب کو اپنی زندگی جینے دو اپنی عبادت کرنے دو اسی میں ملک اور مسلمان دونوں کا بھلا ہے
ملکی مفاد کے مد نظر اور کے پی کے اور بلوچستان کے حالات کے باعث اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جلسے جلوس اور سڑکوں پر جلاو گھیراو کی سیاست سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ملک سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کا بارڈر اپنی ماؤں اور بہنوں کا سودا کرنے والی نمک حرام قوم افغانستان سے ملتا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کی سر پرستی کرتے ہیں۔ بارڈر کی دیکھ بھال اتنی آسان نہیں ہے۔ اتنا لمبا بارڈر وہ بھی پہاڑی علاقہ۔ امریکا جیسا ملک بھی میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد بند نہیں کر سکا
اگر دہشت گردی پنجاب سے ہو رہی ہے تو سندھ میں کیوں نہیں ہو رہی اور اگر ایسا ہے تو ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو کون سپورٹ کر رہا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو سارے دہشت گرد بھاگ کر پنجاب کی بجاے افغانستان کیوں جاتے ہیں۔ سب سے بڑے دہشت گرد افغان طالبان ہیں
کیا آپ اپنے آپ کو ایک محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اپنے آپ پر غور کریں کہ کہیں آپ کسی ملک دشمن گروہ،جماعت،صوبائی گروپ یا مسلک کے ساتھ تو نہیں؟ کیا آپ انجانے میں ملک دشمن بیانیے کا شکار تو نہیں ہو رہے کیوں کہ دشمن یہی چاہتا ہے۔